Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 19

منزل عشق قسط 19
صبح ہوتے ہی ہانیہ اور انس وانیا کے پاس جانے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔
"ہانیہ تم یہ پہن لو ہمیں وہاں اپنی پہچان بدل کر جانا ہوگا اور جتنی خاموشی سے ہو سکے وانیا کو اس گھر سے نکالنا ہے اور اپنے ساتھ لے آنا ہے۔"
انس نے پٹھانی طرز کے کپڑے ہانیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ہانیہ نے انہیں پکڑ کر ہاں میں سر ہلایا۔
"لیکن اس شخص نے بتایا تھا کہ ان کے گاؤں میں بہت زیادہ پہرہ ہوتا ہے ہم اس گاؤں میں داخل کیسے ہوں گے؟"
"اس بات کی تم فکر مت کرو ایک آئیڈیا ہے میرے دماغ میں تم بس وانیا کو وہاں سے نکالنے کے بارے میں سوچو۔"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور کپڑے بدلنے سے چلی گئی۔تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ جامنی رنگ کا فراک اور کھلی سی شلوار پہن کر کمرے سے باہر آئی تو اس کی نظر انس پر پڑی جو مکمل طور پر بدلا ہوا تھا۔
سفید شلوار قمیض پر براؤن چادر لیے اور سر پر براؤن پٹھانی ٹوپی پہنے وہ کسی سلطنت کا شہزادہ ہی تو لگ رہا تھا۔
"چلیں؟"
انس نے اسکی جانب دیکھ کر سوال کیا تو ہانیہ نے جلدی سے دوپٹہ سر پر لے کر اپنا چہرہ چھپا لیا اور اسکے ساتھ باہر آ کر ایک بس میں بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر کے بعد ہی بس چلنے لگی ہاتھ سے لے کر اب تک کئی بار اپنا پلین ڈسکس کر چکے تھے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ہانیہ کا دل بہت ڈر رہا تھا۔
"آپ سے کچھ پوچھوں؟"
"ہمم۔۔۔"
انس نے آہستہ سے کہا۔
"آپ کو کل پتہ کیسے لگا کہ میں کہاں ہوں؟"
کل کا واقع یاد کر کے انس نے پھر سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔
"جو شخص تمہیں لے کر گیا تھا اسکے ساتھ ایک اور آدمی تھا میں نے اسے پکڑا اور اسی سے پتہ معلوم کیا۔۔۔۔یہ تو شکر ہے کہ میں وقت پر پہنچ گیا۔"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلا کر باہر کی جانب دیکھا جہاں وہ بس پہاڑوں پر سے گزر رہی تھی۔
"انس مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ہم وانی کو بچا تو لیں گے نا؟"
انس نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔
"ان شاءاللہ۔"
ہانیہ ہلکا سا مسکرائی اور پھر سے باہر دیکھنے لگی۔اگر اللہ نے چاہا تو وہ بہت جلد اپنی بہن کے پاس ہو گی۔
                      ❤️❤️❤️❤️
راگا کو مرجان نے بتایا تھا کہ وانیا نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور ابھی بھی وہ بس رو رہی تھی۔یہ جان کر راگا خود کھانا لے کر اسکے پاس آیا اور کھانا اسکے سامنے رکھا۔
"کھانا کھاؤ وانیا۔۔۔۔"
راگا نے اسے حکم دیا لیکن وانیہ نے اپنا سر بھی گھٹنوں سے نہیں اٹھایا وہ بس سر جھکائے رونے میں مصروف تھی۔راگا نے گہرا سانس لیا۔
"میری افغان جلیبی کھانا کھا لو نا اپنے پیارے جن کی خاطر ۔۔۔"
راگا نے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بہت پیار سے کہا لیکن وانیا نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"دور رہیں مجھ سے۔۔۔۔"
وانیا غصے سے چلائی لیکن اب راگا کا ضبط جواب دے چکا تھا اسی لئے آگے بڑھا اور وانیا کے بال اپنی مٹھی میں جکڑ کر اس کا چہرہ اپنے قریب کیا۔
"شرافت سے کھانا کھاؤ ورنہ مجھے اپنے طریقے سے بھی کھلانا آتا ہے ۔۔۔"
راگا کے گھور کر کہنے پر وانیا مزید روانی سے بہنے لگیں۔راگا نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور نوالے توڑ کر اس کے منہ میں ڈالنے لگا جبکہ وانیہ اب اس کے خوف سے چپ چاپ کھانا کھا رہی تھی۔
"یہ ہوئی نا بات جان راگا تمہیں اپنی نازک جان کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے کیونکہ تمہارا شوہر اپنا حق لینے پر آیا نا تم میں اسے جھیلنے کی طاقت ہی نہیں۔۔۔۔"
راگا نے اسکا گال سہلاتے شرارت سے کہا لیکن وانیا بس اسے نفرت اور افسوس سے دیکھ رہی تھی۔
"آپ اتنے برے تو نہیں تھے عماد مجھے لگا کہ آپ کے اندر بھی اچھائی ہے۔۔۔۔"
وانیا کے رو کر کہنے پر راگا بس مسکرایا تھا۔
"اس میں غلطی سراسر تمہاری ہے جان جگر تمہیں مجھ میں اچھائی ڈھونڈتی رہی جو کہ مجھ میں پیدا ہونے پر بھی نہیں تھی۔۔۔۔"
راگا نے زہریلی مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"آپ ویسے بھی تو میرے بابا سے سودا کر سکتے تھے نا۔۔۔۔آپ بس میرا نام لیتے ان کے سامنے اور وہ کچھ بھی کر گزرتے۔۔۔۔یہ سارا پیار اور نکاح کا دکھاوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟"
"ہوں جان راگا تم نہیں سمجھو گی ویسے تمہارا باپ تم سے مجھے چھین سکتا تھا لیکن تمہارے دل اور وجود پر حکومت کرنے کے بعد وہ کچھ بھی کر لے۔۔۔۔"
اچانک راگا واپس آیا اور وانیا کے گرد ہاتھ رکھ کر اسکے اتنا قریب ہوا کہ وانیا اسکی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرنے لگی۔
"وہ تمہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا تمہارا دل اور وجود صرف راگا کا رہے گا لخت جگر میرے مرنے کے بعد بھی۔۔۔۔"
راگا نے وحشی انداز میں اسکے نازک گال سے اپنی داڑھی رب کی اور اس سے دور ہو گیا۔
"آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔اس دنیا کے سب سے بڑے انسان۔۔۔"
وانیا نے خود میں سمٹ کر روتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر راگا تلخی سے مسکرایا۔
"اب تم نے مجھے ٹھیک سے پہچانا ہے جان راگا میں بہت برا ہوں شاید شیطان سے بھی زیادہ۔۔۔"
راگا اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور وانیا کتنی ہی دیر اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپائے روتی رہی تھی۔
"مجھے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔۔اللہ پاک میری مدد کریں آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔۔۔میری مدد کریں۔۔۔"
وانیا نے روتے ہوئے کہا اور پھر بہت دیر تک وہیں بیٹھ کر روتی رہی۔
                  ❤️❤️❤️❤️
جنت کل سے اپنے کمرے میں بند تھی۔سالار کئی مرتبہ اسے فون کر چکا تھا لیکن جنت نے اس سے کوئی بات نہیں کی وہ اسے کہتی بھی کیا اس کے پاس سے کہنے کے لیے کچھ بھی تو نہیں تھا۔
"میں اندر آجاؤں؟"
شایان کی آواز پر جنت جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ ٹھیک سے لے کر ہاں میں سر ہلایا۔شایان نے اسکے پاس آ کر پیار سے اسکا چہرہ تھام کر اپنے سینے سے لگایا۔
"میرا بچہ ناراض ہے مجھ سے؟"
جنت نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
"میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں پاپا میں آپ سے ناراض ہو سکتی ہوں؟"
جنت نے آنسو پونچھ کر کہا تو شایان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں پکڑ کر اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔
"اس سے بھی زیادہ پیار کرتی ہو اپنے بابا سے؟"
شایان کے سوال پر جنت کی نگاہیں جھک گئیں اور بہت سے آنسو ان سنہری آنکھوں سے نکلے تھے۔
"میں نہیں جانتی بابا کہ انکے بابا نے کیا کیا تھا میں بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔مجھے ان کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔"
جنت نے روتے ہوئے کہا۔
"اور اگر مجھے یا اس میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو تم کسے چنو گی؟"
شایان کے سوال پر جنت کا دل بہت زور سے دھڑکا۔ہیں کیسی کشمکش میں ڈال دیا تھا شایان نے اسے ایک طرف وہ تھا جو اس کے معصوم دل پر قابض ہوا بیٹھا تھا اور دوسری طرف اس کا باپ تھا جو اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا۔جس کا وہ غرور اور مان تھی۔تو کس محبت کا پلڑا بھاری تھا؟بہت دیر سوچ کر جنت نے اپنا جواب تلاش کیا۔
"آپ کو بابا۔۔۔۔ میں ہمیشہ آپ کو چنوں گی۔۔۔"
اپنی بیٹی کے جواب پر شایان شان سے مسکرایا۔
"تو پھر ایک بات یاد رکھنا بیٹا کہ ایک باب اپنی بیٹی کیلئے کبھی بھی کچھ غلط نہیں سوچتا اسے اپنی بیٹی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔۔۔"
جنت نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔
"مجھے آپ کو ہر فیصلہ منظور ہے بابا میں وہی کروں گی جو آپ چاہتے ہیں۔"
اپنی بیٹی کے جواب پر شایان نے مسکرا کر اس کا ماتھا چوما۔
"تم میرا غرور ہو جنت اور آج یہ بات کہہ کر تم نے میرا مان مزید بڑھا دیا ہے۔"
شایان اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اگر ایک باپ کے لیے سب سے عزیز چیز اس کی بیٹی کی خوشیاں ہوتی ہیں تو ایک بیٹی بھی اپنے باپ کی ناموس کی خاطر ان خوشیوں کو دہکتی بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔
                    ❤️❤️❤️❤️
معراج خادم شفیق سے ملنے اسکے گھر آیا تو اسکی پہلی نگاہ ایمان پر پڑی جو لاونج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ایمان نے جیسے ہی معراج کو دیکھا  خوشی سے چہکتے ہوئے اس کے پاس آئی۔
"کیسے ہو تم ملنگ اتنے دنوں کے بعد آئے چلو میرے روم میں میں نے تمہیں اپنا سکیچ دیکھانا ہے جو میں نے ہم دونوں کا بنایا ہے۔"
ایمان نے خوشی سے اسے کھینچتے ہوئے بتایا لیکن معراج اپنی جگہ پر جما رہا تھا۔
"ممم۔۔۔۔میں انکل سے ملنے آیا ہوں۔"
معراج نے سنجیدگی سے کہا تو ایمان کے چہرے کی مسکان غائب ہو گئی۔
"تم مجھ سے ملنے نہیں آئے؟تم مجھ سے ناراض ہو کیا؟"
یہ سوال پوچھتے ہوئے ایمان کا دل خوف سے بند ہوا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا سب سے اچھا اکلوتا دوست اس سے ناراض ہوجائے۔
"ننن۔۔۔۔نہیں ناراض نہیں ہوں ببب۔۔۔۔بس انکل سے ملنے آیا ہوں۔"
ایمان نے ہاں میں سر ہلا کر اسکا ہاتھ چھوڑا اور معراج وہاں سے خادم کے آفس کی طرف چل دیا لیکن ایمان بے چین ہوتے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسکے پیچھے گئی تھی۔
"مم ۔۔۔۔میں اندر آ جاؤں انکل؟"
معراج نے دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھا۔
"ہاں آؤ معراج بیٹا۔۔۔"
خادم صاحب کے کہنے پر معراج اندر آیا اور کمر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر سر جھکاتے ہوئے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
"ممم ۔۔۔۔مجھے آپ سے ببب۔۔۔۔بات کرنی ہے۔۔۔۔"
"ہاں کہو بیٹا۔۔۔"
معراج کی پریشانی دیکھ کر خادم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
"ببب۔۔۔۔۔بڑے بابا میری شادی ااا۔۔۔۔اپنی بیٹی جنت سے ککک۔۔۔۔کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ااا۔۔۔۔اس لیے میں ااا۔۔۔۔ایمان سے شادی نہیں کر سکتا انکل۔۔۔۔"
معراج کی بات پر خادم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔
"لیکن معراج تم نے خود مجھے بتایا تھا کہ تم ایمان کو پسند کرتے ہو۔"
خادم کے چہرے پر غصے کے آثار واضح تھے۔
"ججج۔۔۔۔جی انکل کرتا ہوں۔۔۔۔لللل۔۔۔۔۔لیکن ممم۔۔۔۔میں بڑے بابا کی بات ننن۔۔۔۔نہیں ٹالوں گا۔۔۔ااا۔۔۔۔اس لیے سوری۔۔۔"
معراج اتنا کہہ کر پلٹا تو اسکی نگاہ دروازے میں کھڑی ایمان پر گئی جس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو چکی تھیں۔وہ آہستہ سے چل کر معراج کے پاس آئی تو معراج اپنی پلکیں جھکا گیا۔
"تمہاری شادی ہو رہی ہے ملنگ؟"
معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔
"بہت مبارک ہو تمہیں ملنگ بہت خوش قسمت ہے نا وہ تم اب ہمیشہ کے لیے اسکے دوست بن جاؤ گے۔۔۔۔"
ایمان نے نم آنکھوں سے مسکرا کر کہا پھر ایک خیال کے تحت ان آنکھوں میں خوف اترا تھا۔
"تم مجھے بھولو گے تو نہیں نا ملنگ۔۔۔تم مجھ سے دوستی تو نہیں توڑ دو گے؟"
اس سے پہلے کے معراج کچھ کہتا ایمان اسکے پاس آئی اور اسکے ہاتھ بے چینی سے تھام لیے۔
"پلیز مجھ سے دوستی مت توڑنا میرا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔پلیز چاہے تو سال میں ایک بار ملنے آ جانا لیکن مجھ سے دوستی نہ توڑنا۔۔۔ "
ایمان کی بات پر کئی آنسو معراج کی سبز آنکھوں سے ٹوٹ کر زمین کر گرے۔
"نہیں توڑوں گا تم سے دوستی وعدہ۔۔۔۔"
معراج نے اسے یقین دلایا تو ایمان نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے۔
"اپنی منگیتر کو کہنا میری دوست کہتی ہے کہ معراج بہت اچھا ہے اسکا بہت زیادہ خیال رکھے۔۔۔وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ اچھا ہے۔"
ایمان نے اتنا ہی کہا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔معراج نے کرب سے اپنی سبز آنکھیں میچ لیں۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی معراج سعد کسی اور سے شادی کا وعدہ کر کے میری بیٹی سے جھوٹے وعدے کرنے کی ہاں بولو ۔۔۔۔"
خادم معراج کے سامنے آیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر گھورتے ہوئے کہا۔ایک پل میں خوف سے معراج کا دل حلق میں آیا تھا۔
"ااا۔۔۔۔انکل۔۔۔۔"
"بہت شوق ہے نہ تمہیں اپنے بڑے پاپا کی بیٹی سے شادی کرنے کا۔۔۔بہت اچھا لگتا ہے نہ تمہیں وہ اور تمہارا وہ ماموں وجدان خان۔۔۔سچ جانو گے نا تو ان کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہیں کروگے۔"
خادم کے غصے سے کہنے پر معراج کی سبز آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔
"ییی۔۔۔۔یہ آپ کیا کککک۔۔۔۔کہہ رہے ہیں؟"
"ہاں معراج سعد تمہارے ماں باپ کا قتل ہوا تھا جو تمہاری پیاری ممانی کے بہنوئی نے کیا تھا اور جانتے ہو کیا کیا ان دونوں نے اس کے ساتھ۔۔۔۔معاف کر دیا اسے اور ملک سے باہر بھگا دیا جہاں وہ آج بھی عیاشی کر رہا ہے ۔۔۔۔"
خادم کی بات پر معراج کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"ننن۔۔۔۔نہیں آپ جھوٹ بببب ۔۔۔۔۔بول رہے ہیں۔۔۔۔"
"ہاہاہاہا۔۔۔جھوٹ؟ جا کر آج اپنے بڑے بابا سے پوچھنا معراج تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔۔۔"
اتنا کہہ کر خادم نے معراج کو جھٹکے سے چھوڑا۔
"نکل جاؤ میرے گھر سے اور اب میری بیٹی ہو مزید اذیت دینے مت آنا یہاں پر۔۔۔"
خادم نے غصے سے کہا تو معراج جلدی سے وہاں سے باہر آ گیا لیکن دماغ میں ابھی بھی خادم کی باتوں کا فتور گھوم رہا تھا اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ شایان سے یہ سوال ضرور کرے گا۔
                     ❤️❤️❤️❤️
ہانیہ اور انس کال کے بتائے ہوئے علاقے میں پہنچ چکے تھے جو پہاڑوں کے دامن میں بنا چھوٹا سا گاؤں تھا اور اردگرد بس پہاڑ ہی تھے۔
"اس شخص کے بتانے کے متابق اس پہاڑ کے پاس سے ایک خفیہ راستہ غار میں سے گزرتا ہے جس کا علم بس ان خاص لوگوں کو ہے ہمیں اسی راستے سے اندر داخل ہونا ہو گا۔"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
"تمہیں پشتو آتی ہے؟"
ہانیہ نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔
"فینٹاسٹک۔۔۔بس ہمیں اگر کوئی روکے گا تو ہم کہیں گے کہ ہم اسی گاؤں میں رہتے ہیں لیکن ہمارا مین ٹارگٹ راگا کا گھر ہے۔۔۔ہمیں جلد از جلد بس وہیں جانا ہے۔"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
"اور اس سے آگے میرا کام ہو گا۔"
انس مسکرایا اور اسکے ہاتھ میں ایک پسٹل پکڑا دی جو ہانیہ نے چھپا لی۔انس اسے اس غار سے لے کر اس گاؤں میں آیا۔تھوڑی ہی دیر میں انہیں وہ گھر مل گیا جس کی نشانیاں انہیں اس آدمی نے بتائیں تھی۔
"جاؤ ہانیہ میں گھر کے پیچھے ہی رہوں گا تم وانیا کو وہاں بھیج دینا۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔۔"
ہانیہ اتنا کہہ کر جانے لگی تو انس نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا۔
"اپنا خیال رکھنا۔۔۔"
ہانیہ نے ہلکا سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور اس گھر کی جانب چلی گئی۔بایر ہی دو پہرے دار کھڑے تھے۔ہانیہ دروازے کی جانب بڑی تو وہ دونوں حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔
"آپ تو اندر نہیں تھا؟"
ایک نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا۔
"میں کب سے باہر ہوں اور پتہ بھی نہیں تم دونوں کا نا جانے دھیان کہاں ہوتا ہے اب اپنے کام پر دھیان دینا۔"
ہانیہ نے سختی سے کہا تو دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ہانیہ کمرے میں آئی اور بے چینی سے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔وانیا اسے ایک کونے میں سمٹی روتی ہوئی نظر آئی تھی۔
"وانی۔۔۔"
بلکل اپنے جیسی ہی آواز وانیا کے کانوں میں پڑی تو اس نے حیرت سے نگاہیں اٹھا کر ہانیہ کو دیکھا جو اسکے سامنے کھڑی تھی۔
"ہانی ۔۔۔۔؟"
وانیا نے نم آنکھوں سے کہا تو ہانیہ نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔وانیا جلدی سے اٹھی اور بھاگ کر ہانیہ سے لپٹ گئی۔
"ہانی کہاں تھی تم۔۔۔۔۔میں اتنا عرصہ یہاں قید رہی ہانی تمہارے بنا۔۔۔۔۔"
وانیا اسکے سینے سے لپٹی روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"شششش۔۔۔۔وانی بس رو مت اب میں آ گئی ہوں نا اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"
ہانیہ نے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور بے چینی سے دروازے کی طرف دیکھا جہاں باہر ابھی بھی دو پہرے دار کھڑے تھے۔
"وانی میری بات دھیان سے سنو میں تمہیں یہاں سے باہر نکالوں گی تو تم اس گھر کے پیچھے چکی جانا وہاں انس تمہارا انتظار کر رہا ہے وہ تمہیں یہاں سے کے جائے گا۔۔۔"
ہانیہ نے ایک چادر پکڑ کر اس پر ڈالتے ہوئے گھونگھٹ نکال کر کہا جبکہ اسکی بات سن کر وانیا بے چین ہو چکی تھی۔
"لیکن ہانی تم۔۔۔"
"میری فکر مت کرو  ہانیہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی اور تم جانتی ہو کہ میں بھاگ جاؤں گی تم بس جلدی سے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"
ہانیہ باقاعدہ اسے دروازے کی طرف کھینچتے ہوئے کہہ رہی تھی۔وانیہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ اس جگہ کو چھوڑ کر جانا چاہتی تھی اور آج جب یہ ہو رہا تھا تو نہ جانے کیوں راگا سے دور جانے کا خیال ہے وہ اندر ہی اندر ختم کر رہا تھا۔
نہیں وانیہ و ہ بہت برا ہے کسی سے محبت نہیں کرتا بس تمہیں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔۔۔
وانیہ کے دل سے آواز آئی تو اپنے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتے ہوئے اس نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا گھونگھٹ نکال لیا۔
ہانیہ اسے ہاتھ تھام کر باہر لے کر آئی تو باہر کھڑے پہرےدار حیرت سے ان دونوں کو دیکھنے لگے۔
"یہ لڑکی کون ہے؟"
وانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک پہرے دار نے حیرت سے پوچھا۔
"دوست ہے میری اور صبح سے یہیں ہے نا جانے دھیان کہاں ہوتا ہے آپ لوگوں کا۔۔۔۔تم گھر جاؤ۔۔۔"
ہانیہ نے پہرے داروں کو ڈپٹتے ہوئے وانیہ کا ہاتھ دبا کر کہا تو وہ خاموشی سے وہاں سے چل پڑی۔جب اس نے دیکھا کہ پہلے داروں کا دھیان اس پر نہیں تو جلدی سے گھر کی پچھلی طرف آئی جہاں واقعی میں انس کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔
"ہانیہ؟"
انس کی آواز پر وانیہ نے اپنا گھونگھٹ ہٹا دیا۔
"یہ میں ہوں انس بھائی۔۔۔"
انس نے اثبات میں سر ہلایا اور اور اسے پھر سے گھونگھٹ اوڑھنے کا اشارہ کر کے اپنے ساتھ اس خفیہ راستے کی جانب لے جانے لگا جہاں سے وہ لوگ آئے تھے۔
"انس بھائی میری جگہ ہانیہ وہاں پر ہے وہ وہاں سے کیسے آئے گی؟"
"فکر مت کرو گڑیا تمہیں  محفوظ جگہ چھوڑ کر میں خود سے لے کر آؤں گا۔"
وہ لوگ ایک پہاڑ کی جانب گئے جہاں ایک غار میں سے راستہ نکلتا تھا ابھی انہوں نے اس غار کی جانب قدم بڑھایا ہی تھا جب گولیاں چلنے کی آواز انکے کانوں سے ٹکرائی وانیا خوف سے کانپ اٹھی تھی۔
ایک آدمی کو اس طرف آتا دیکھ کر وہ دونوں فوراً غار کی اوٹ میں چھپ گئے۔اس آدمی کے پیچھے دو فوجی بھی تھے۔
"یہ کیا ہوا انس بھائی۔۔۔؟"
وانیا نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"لگتا ہے ان لوگوں پر فوج نے حملہ کیا ہے؟"
یہ سن کر وانیا کا دل خوف سے بند ہوا۔نا جانے اب وہ راگا کے ساتھ کیا کریں گے۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس بے وفا شخص کے لیے ایک خوف اسکے معصوم دل میں آیا۔
"وانیا میری بات دھیان سے سنو تم یہاں چھپو اور میں ہانیہ کو لے کر آتا ہوں اسے اس خطرے میں نہیں چھوڑ سکتے۔کچھ بھی ہو یہاں سے باہر مت آنا۔۔۔۔اور یہ گن اپنے پاس رکھو"
انس کے سمجھانے پر وانیا نے اثبات میں سر ہلایا اور اسکے ہاتھ سے بندوق پکڑ لی۔ انس وہاں سے چلا گیا اور وانیا گولیوں کی آواز پر خود میں سمٹتی چلی گئی تھی۔
اچانک ہی راگا کی جانی پہچانی آواز وانیا کے کانوں سے ٹکرائی۔وہ شائید پشتو میں کسی کو کچھ کہہ رہا تھا۔اسکی آواز سن کر وانیا دھڑکتے دل کے ساتھ اس غار سے باہر آئی اور ایک درخت کی اوٹ میں چھپ کر اسے دیکھا۔
"عماد۔۔۔۔؟"
وانیا نے بے یقینی سے اسے دیکھتے ہوئے ہلکے سے کہا کیونکہ اس وقت ایک فوجی کی لاش زمین پر پڑی تھی اور دوسرا فوجی بھی زمین پر گرا راگا کو دیکھ رہا تھا جبکہ راگا اس پر بندوق تانے مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا۔
"زما نیول سخت دي۔(مجھے پکڑنا بہت مشکل ہے)"
راگا نے مسکرا کر کہا اور بندوق کا رخ اس فوجی کے ماتھے کی جانب کیا۔
"نہیں رک جائیں مت کریں ایسا۔۔۔"
وانیہ چلائی اور اسکے پاس آنے لگی لیکن راگا ایسے تھا جیسے سن ہی نہ رہا ہو۔
"جہنم میں جاؤ فوجی۔۔۔۔"
راگا نے ہنس کر کہا لیکن اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا وانیا کی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔
"رک جائیں ورنہ گولی مار دوں گی۔۔۔!!!"
راگا نے حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو کانپتے ہاتھوں میں پکڑی پسٹل اس پر تانے روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"تم مجھے مارے گا۔۔۔۔ہاہاہا اچھا مزاق تھا ماڑا۔۔۔"
راگا نے اسکے کانپتے ہاتھوں پر چوٹ کر کے کہا اور پھر سے بندوق اس فوجی کی جانب کر دی جو اپنی ٹانگ میں لگی گولی کی وجہ سے اٹھنے سے قاصر تھا۔
"راگا اپنے دشمن کو کسی چڑیا کے ڈر سے نہیں چھوڑے گا۔۔۔"
اتنا کہہ کر راگا نے بندوق اسکے ماتھے کے ساتھ ٹکا دی۔
"لاالہ الااللہ۔۔۔"
فوجی نے آنکھیں بند کر کے کہا تبھی فضا میں گولی کی آواز گونجی۔راگا نے فوجی سے نگاہیں ہٹا کر اپنے سینے کو دیکھا جہاں سے خون کی دھار نکل رہی تھی۔
پھر اس نے حیرت سے سامنے کھڑی وانیا کو دیکھا جو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بری طرح سے کانپ رہی تھی۔ایسا لگتا تھا بندوق اسکے ہاتھ سے گر جائے گی۔
راگا نے اپنی بندوق کو فوجی سے ہٹا کر وانیا کی جانب کیا تو وانیا نے کانپتے ہاتھوں سے ایک اور گولی چلا دی جو اب کی بار سیدھا راگا کے دل میں لگی اور ساتھ ہی اسکا وجود زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
اسکو یوں دیکھ کر بندوق وانیا کے ہاتھ سے چھوٹی اور وہ روتے ہوئے راگا کے پاس آئی۔
"عماد؟"
وانیا نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا جہاں سے اب خون نکل رہا تھا اور دھڑکتا دل بند ہو چکا تھا۔بہت سے آنسو وانیا کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے وہ اپنی ہی محبت کو اپنے ہاتھوں سے مار چکی تھی۔
                    ❤️❤️❤️❤️

   0
0 Comments